Header Ads Widget

Responsive Advertisement

الیکشن میں دھاندلی اور حکومت کا مجوزہ آئینی بل۔ نیت کیا ہے؟



 الیکشن میں دھاندلی اور پی ٹی آئی کا مجوزہ الیکشن ترمیمی بل 

تحریک انصاف نے جون میں قومی اسمبلی سے الیکشن اصلاحات 2021 کے نام کا متنازعہ بل پاس کروایا۔ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے نہ حزب مخالف سے مشاورت کی کئی اور نہ ہی الیکشن کمیشن سے سے رجوع کیا گیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے باقاعدہ طور  حکومت کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا کہ حکومت کے مجوزہ بل میں 17 ایسی شقیں ہیں جو آئین سے متصادم ہیں۔حکومت کی انتخابی اصلاحات کے بارے تیزی اور پھرتیاں سارے عمل کو مشکوک بناتی ہیں۔ اگر حکومت انتخابی اصلاحات اور دھاندلی روکنے میں مخلص ہوتی تو الیکشن کمیشن اور اپوزیشن سے مل کر جامع اصلاحات پیش کرتی۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی دلچسپی  انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا۔ حقیقت میں ان دونوں چیزوں سے الیکشن کی شفافیت سے دور دور تک کا تعلق نہیں ۔ پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی کے تین مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ الیکشن کے دن سے پہلے کا ہے جس کے لیے پری پول رگنگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دھاندلی کے اس مرحلے میں قومی میڈیا کے ذریعے خاص پارٹی کے لیے رائے عامہ بنانا۔ الیکٹ ایبلز کو خاص پارٹی میں شامل کرانا۔ دوسری پارٹیوں کے تگڑے امیدواروں کے لیے الیکشن مہم میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور ان کے خلاف کثرت سے امیدوار کھڑے کروانا  وغیرہ جیسے اقدامات ہیں۔ دھاندلی کا دوسرا مرحلہ الیکشن والے دن دھاندلی کا ہے جسے پول ڈے دھاندلی کہتے ہیں۔ اس کے لیے ان حلقوں کی نشان دہی پہلے سے کرلی جاتی ہےجن حلقوں میں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہوتا ہے اور ہارجیت کے کم مارجن کی توقع ہوتی ہے۔ ایسے حلقوں میں انتظامیہ کی مدد سے اپنے پسندیدہ امیدوار کے لیے سہولیات کا بندوبست کیا جاتا ہے اور ناپسندیدہ امیدوار کے ووٹروں کو ہراساں کرنا،  پولنگ کا عمل سست کروانا یا بار بار رکوانا،  ناپسندیدہ امیدوار کے سرگرم سپوٹران کو مختلف الزامات لگا کر پولیس سے اٹھوا لینا وغیرہ شامل ہیں۔ اس قسم کی دھاندلی کیونکہ چند مخصوص حلقوں میں ہورہی ہوتی ہے اور باقی جگہ پولنگ کا عمل صاف شفاف اور درست چل رہا ہوتا جس کو دیکھ کر عالمی اداروں اور میڈیا کچھ اطمینان کا اظہار کر دیتے جسے بطور شفافیت کی سند کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔ دھاندلی کا تیسرا مرحلہ انتخابات کے بعد شروع ہوتا ہے جسے پوسٹ پول رگنگ کہتے ہیں جس میں آزاد جیتنے والوں کو اپنی پسندیدہ پارٹی میں شامل کرایا جاتاہے اور اس کے بعد چھوٹی پارٹیوں کو اتحادی بنایا جاتا ہے جس کے لیے سرکاری خزانے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ 
مجوزہ حکومتی بل میں ان تینوں مراحل کی دھاندلی کو روکنے کے لیے ایک بھی شق شامل نہیں ۔ دھاندلی قوانین بنانے سے نہیں قوانين پر عمل کرنے رک سکتی ہے۔ جب دھاندلی کرنے والوں کی منشا ہی دھاندلی ہو تو قانون جو مرضی بنا لو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آج تک پاکستان کے کسی بھی الیکشن کو صاف شفاف نہیں کہا گیا۔تواتر سے ایک ہی طریقے سے دھاندلی کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں دھاندلی کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ڈسکہ کے الیکشن میں دھاندلی کا حربہ استعمال کیا گیا لیکن  پھر بھی ذلت کے ساتھ شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑا۔
پچھلے الیکشن میں 53 نشستیں ایسی ہیں جو پی ٹی آئی 10 ہزار سے کم مارجن سے جیتی ہے۔ سیاسی امور کے تمام ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ خراب طرز حکمرانی،  مہنگائی اور اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف کے ووٹ میں واضع کمی آئی ہے۔ جن سیٹوں پر تحریک انصاف دس ہزار ووٹ سے کم ووٹوں سے جیتی ہے وہاں اس کے ووٹ میں نمایاں کمی آچکی ہے۔ لہٰذا اگلے الیکشن  میں ان سیٹوں کے نتائج تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج اس تھیوری کو تائد کرتے نظر آتے ہیں۔
تحریک انصاف بظاہر تو بیرون ملک مقیم دو لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے لیکن ان کا ووٹ کاسٹ کیسے ہوگا؟   ظاہر ہے کہ وہ پاکستان آکر ووٹ تو کاسٹ نہیں کرسکتے۔ اس لیے ان کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ استعمال ہوگا۔ اسی طرح عمران اور تحریک انصاف اگلے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ چاہتے ہیں۔
دنیا میں ووٹنگ کے لیے صرف 2% فیصد الیکٹرانک مشینیں استعمال کی جارہی ہیں۔ اور ان میں بھی زیادہ تر ٹرائیل اور پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ہیں۔ انڈیا جہاں الیکٹرونک مشینیں استعمال کی جارہی ہیں وہاں بھی ان کا استعمال مرحلہ وار شروع ہوا ہےاور 30 سال بعد بھی مرحلہ وار الیکشن کروائے جاتے ۔ یاد رہے کہ انڈیا میں انتخابات ہمیشہ سے وقت پر ہوتے ہیں اور وہاں پر کبھی اداروں پر دھاندلی کے الزام نہیں لگتے ۔وہاں کے الیکشن کمیشن پر عوام اور پارٹیوں کا اعتماد ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں صرف ایک چھوٹا ساپارٹ آر ٹی ایس کا رکھا گیا تھا۔ پریزائیڈنگ آفسر نے ایک ایپ کے ذریعے رزلٹ ریٹرننگ آفسر کو بھیجنا تھا لیکن وہ ناکام ہو گیا تھا ۔ 
نادارا  جس نے ووٹ کی تصدیق کے لیے 8300 پر ایس ایم ایس کی سہولت دی تھی،  الیکشن کے دن کروڑوں لوگوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا اور نادرا کی یہ سروس سارا دن چلتی رہی اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں آیا تھاجس پر نادرا کو کئی ایوارڈز بھی دیے گئے۔ لیکن اسی نادرا کا ایک سسٹم چند ہزار رزلٹ نہ بھیج سکا۔ نادرا نے آفیشلی طور پر یہ کہا تھا کہ رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم درست کام کر رہا رہا تھا لیکن آج تک اس کے بارے کسی نے تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جب نادرا آر ٹی ایس میں کسی خرابی کی تردید کر رہا ہے تو پھر آرٹی ایس کے کام نہ کرنے کی کیا وجہ تھی۔
عمران خان اور تحریک انصاف بغیر کسی ٹرائیل اور پائیلٹ پروجیکٹ کے 2023ء کے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں کیوں چاہتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی بہت بڑی آبادی ان پڑھ ہے اور ان کو الیکٹرانک مشین پر ووٹ کاسٹ کرنے مشکلات آسکتی ہیں۔ پاکستان کے بہت بڑے حصہ انٹرنیٹ  کی سہولت موجود نہیں ۔ 
حکومت کے مقاصد یقینی طور شفاف الیکشن ہرگز نہیں بلکہ وہ قوم اور الیکشن کو ایسے گرداب میں پھنسانا چاہتے ہیں جس سے وہ کئی سال تک نہیں نکل سکیں گے۔ اگر موجودہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے اور الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جائے تو بہت حد دھاندلی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے